حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،علامہ محمد امین شہیدی امت واحدہ پاکستان کے سربراہ ہیں، انکا شمار ملک کے معروف ترین علمائے کرام اور مذہبی اسکالرز میں ہوتا ہے جو دلیل کے ساتھ اپنا موقف پیش کرتے ہیں، خاص طور پر الیکٹرانک میڈیا پر ٹاک شوز، مذاکروں اور مذہبی محافل میں شریک دکھائی دیتے ہیں۔ علامہ امین شہیدی اتحاد بین المسلمین کے حقیقی داعی ہیں اور اسکے ساتھ ساتھ ملکی اور عالمی حالات پر بھی گہری نظر رکھتے ہیں، وہ اپنی تقریر میں حقائق کی بنیاد پہ حالات کا نہایت درست اور عمیق تجزیہ پیش کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ کرنٹ افیئرز سے دلچسپی رکھنے والے حلقوں میں انہیں بڑی پذیرائی حاصل ہے۔حوزہ نیوز ایجنسی نے علامہ محمد امین شہیدی سے پاکستان کے موجودہ حالات کے تناظر میں ایک خصوصی انٹرویو کیا، جو سوال و جواب کی شکل میں پیش خدمت ہے۔(ادارہ)
حوزہ: ہمارا پہلا سوال آپ سے یہ ہے کہ براہ کرم پاکستان میں تشیع کو درپیش مسائل اور ان کے راہ حل پر روشنی ڈالیں۔
علامہ امین شہیدی: پاکستان میں مکتبِ تشیع اپنی سیاسی و اجتماعی شناخت میں ایک ایسے مرحلہ سے گزر رہا ہے جس میں یہ مکتب جس مقام و اہمیت کا حامل ہے اور جو توانائی اس میں موجود ہے اور وہ تاثیر جو معاشرہ میں اس مکتب کو حاصل ہونا چاہئے وہ کماحقہ نظر نہیں آ رہا۔ خواہ تعلیمی میدان ہو یا کاروبار، یا پھر حکومت و ریاست کے امور و مسائل ہوں، من حیثِ مکتبِ تشیع ہمیں محنت کی بہت ضرورت ہے۔ ملک کی پچیس فیصد شیعہ آبادی کی مضبوط سیاسی شناخت کا نہ ہونا ایک المیہ ہے اور بیوروکریسی، اسٹیبلشمنٹ، سرکاری و غیر سرکاری تعلیمی و کاروباری شعبوں میں مؤثر نمائندگی کا نہ ہونا بھی قابل افسوس ہے۔ اس مکتب کے پیروکاروں کو انقلابی اور عاشورائی شناخت کے حوالے سے بہت زیادہ محنت اور شعوری طور پر قدم بڑھانے کی ضرورت ہے۔ ہمارا سیاسی قد کاٹھ زیادہ اونچا نہیں۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ ادارے اور جماعتیں جن کو تشیع کی سیاسی شناخت کو اجاگر اور اس کی حفاظت کرنا تھی وہ اس مقصد میں کامیاب ہوتے نظر نہیں آئے۔ اس کے مقابلہ میں جن مسلم ممالک میں تشیع موجود ہے، وہاں ان کی عملی تاثیر کہیں زیادہ ہے۔ اس کی مثال لبنان، عراق، یمن اور افغانستان کے ممالک ہیں۔ افغانستان میں ہمارے ملک کے مقابلہ میں کم آبادی کے باوجود شیعہ قوم نے معاشرتی اور سیاسی شناخت کے لحاظ سے بھرپور تشخص کا مظاہرہ کیا ہے۔ پاکستان میں اس چیز کا فقدان نظر آتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تعلیمی میدان، تبلیغِ دین اور اہل بیت علیہم السلام کی تہذیب کو زندہ کرنے کے حوالہ سے ہماری جانب سے کوتاہی کا مظاہرہ کیا گیا، دینی تبلیغ و شعور کو اجاگر کرنے کے لئے اسلامی انقلاب سے الہام لینے کی بجائے ہم معاشرہ کی رو میں بہتے چلے گئے اور اس کے نتیجہ میں روایاتی موضوعات کو تشیع قرار دے دیا۔ اس تحلیل کی وجہ سے ہماری شناخت جو کہ حقیقی طور پر کربلائی، بیداری، ظلم کے مقابلہ میں مظلوم کی حمایت، انقلابیت و مقاومت پر مشتمل ہے، آہستہ آہستہ کمزور پڑتی گئی۔ اجتماعی تنظیموں کی انفرادی شناخت بنانے اور چھوٹے امور میں الجھے رہنے کی وجہ سے ملک گیر اثرات نظر نہیں آئے۔
تعلیم، اقتصاد، صحت، تبلیغِ فرہنگ اور ترویجِ تہذیبِ تشیع کو برصغیر میں بالعموم اور معاشرہ میں بالخصوص پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ ہماری توجہ مدارس اور جدید عصری علوم خواہ ان کا تعلق دین سے ہی کیوں نہ ہو پر بہت کم ہے اور ان کے حوالہ سے ہمارا کردار کماحقہ نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم عدم شناخت کا شکار ہیں اور سیاسی، سماجی اور ثقافتی مسائل سے دوچار ہیں۔ لہذا اعلی ذہن رکھنے والے باصلاحیت علماء و غیر علماء، اہل قلم و دانش سب کی ذمہ داری بنتی ہے کہ قومی یکجہتی کے شعور کو بڑھانے کے لئے اپنا کردار ادا کریں۔
حوزہ: حالیہ سب سے مہم مسئلہ زائرین اربعینی کی سفری مشکلات ہیں۔ ان مسائل کے حل اور پاکستانی زائرین کے لئے آسان زیارت کے حصول کے لیے کیا اقدامات انجام دئے گئے ہیں؟
علامہ امین شہیدی: پاکستان سے تقریبا ایک لاکھ زائرین اربعین کے ایام میں عراق کی طرف سفر کرتے ہیں اور عراقی حکومت کی زیارتی پالیسی کی وجہ سے انہیں جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، وہ بہت تکلیف دہ ہے۔ پاکستانی زائرین اربعین سے قبل آخری ایام تک ویزے کے حصول کی لاحاصل کوششوں میں مصروف نظر آتے ہیں۔ اسی وجہ سے قافلے لے کر عراق جانے والی کمپنیوں کو بھی کروڑوں کا مالی نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ مزید یہ کہ عراق کی ویزہ پالیسی میں بھی آئے دن تبدیلی واقع ہوتی رہتی ہے۔ ایسی ناقص حکمت عملی زائرین و اداروں کے لئے شدید ذہنی اذیت کا باعث ہے۔ ایران جانے کے بعد پاکستانی زائرین کو عراق بارڈر پر روک لیا جاتا ہے اور قافلہ سالار کا تمام پیسہ جو وہ زائرین سے ڈالرز کی شکل میں وصول کرنے کے بعد ادا کرتا ہے، بالآخر ڈوب جاتا ہے۔ زائرین زیارت اور رقم کی بازیابی سے محروم رہ جاتے ہیں۔ دیگر ممالک جیسے کویت، ایران، عرب ریاستیں، یورپ اور امریکہ سے آئے ہوئے مسلمانوں کو ویزہ کے حصول میں کوئی مسئلہ درپیش نہیں ہوتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی شناخت مضبوط اور محفوظ ہے۔
پاکستانی وزارتِ خارجہ کی عدم دلچسپی کی وجہ سے بھی یہ مسئلہ برقرار ہے جبکہ ہماری مذہبی جماعتوں کے نمائندے تیسرے درجہ کے چند سرکاری افسران سے ملاقات کے بعد مسئلہ کے حل کا امکان ظاہر کرتے ہیں اور مطمئن ہو جاتے ہیں۔
یہ سب پاکستانی تشیع کی سیاسی و سماجی ساکھ اور قوت نہ ہونے اور اپنے حقوق کی حفاظت نہ کر سکنے کی وجہ سے ہو رہا ہے۔
حوزہ: آیا پاکستانی علماء کرام زائرین کی مشکلات کے حل کیلئے کوئی مؤثر وجود بھی رکھتے ہیں یا یہ مسئلہ صرف سیاسی اور حکومتی طریقے سے ہی حل کیا جا سکتا ہے؟
علامہ امین شہیدی: زائرین سے متعلق تمام مسائل کا حل اسی صورت ممکن ہے جب پاکستان کے تمام علماء کرام متحد ہو کر پاکستان اور عراق کی وزارتِ خارجہ کے سامنے مشترکہ مؤقف پیش کریں۔ اگر ہماری اجتماعی حیثیت کمزور رہی تو ہمیں اپنے اور اغیار دونوں اہمیت نہیں دیں گے۔ عملی طور پر کم سے کم اتنا تو ہونا چاہیے تھا کہ الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کے ذریعہ اس مسئلہ کو اتنی شدت سے اٹھایا جاتا کہ ہماری حکومت متوجہ ہوتی اور مسلک کے فرق سے بالاتر ہو کر عراق کی وزارتِ خارجہ سے باقاعدہ بات چیت کرتی۔ یہ سرکاری معاملہ ہے لہذا حکومتِ وقت کو ٹھوس اقدامات کرنا ہوں گے، صرف علماء کرام سے اس مسئلہ کے حل کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ وہ بیانات اور ردِعمل کی حد تک مسئلہ کو اجاگر کر سکتے ہیں۔ مسئلہ کے حل کے لئے بہرحال حکومت اور متعلقہ اداروں کی مدد درکار ہے۔
حوزہ: پاکستان میں تعلیمی نصاب کے مسئلہ میں تشیع پاکستان کے خدشات کی دوری کس حد تک محقق ہوئی ہے؟
علامہ امین شہیدی: پاکستان کے نظامِ تعلیم میں نصاب کی تبدیلی کا مسئلہ مقامی نہیں ہے، یہ ایک بین الاقوامی مسئلہ ہے جس کا تعلق امریکہ اور اسرائیل کے بنائے گئے منصوبہ ”وژن 2030“ سے ہے۔ اسی لئے دیگر مسلم ممالک کے ساتھ پاکستان بھی اس منصوبہ کا حصہ ہے۔ نصاب کی تبدیلی کا اختیار ہماری حکومتوں سے زیادہ اسٹیبلشمنٹ کے پاس ہے۔ گذشتہ آٹھ سالوں کی مختلف حکومتیں اس سلسلہ کو آگے بڑھاتی رہی ہیں لیکن تبدیلی نصاب پر اصل کام اسٹیبلشمنٹ نے کیا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ مستقل ادارہ ہے اسی لئے تمام اعتراضات کے باوجود نصابِ تعلیم کے حوالہ سے کوئی ایسا قدم نہیں اٹھایا گیا جس سے یہ محسوس ہو کہ شیعہ علماء کرام کا نقطہ نظر قبول کیا گیا ہے۔ نصابِ تعلیم میں جو ترامیم کی گئی ہیں وہ جوں کی توں موجود ہیں۔ ان میں تبدیلی کے حوالہ سے شیعہ علماء کرام کے مطالبات کوتسلیم نہیں کیا گیا، ان سے محض وعدے وعید کی حد تک بات کی گئی ہے۔
حوزہ: سیلاب سے حالیہ نقصانات کو اجمالا بیان کریں اور متاثرین کی دوبارہ بحالی کے لئے آپ کے پاس کیا عملی راہ حل ہے؟
علامہ امین شہیدی: اداروں کی طرف سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق سیلاب کے نتیجہ میں تقریباً دس لاکھ سے زائد گھر، دو سے تین کروڑ کی آبادی،کئی شہر، رابطہ سڑکیں اور شاہراہیں متاثر ہوئی ہیں۔ ملک کا نصف علاقہ زیرِ آب ہے جس کی وجہ سے سینکڑوں دیہات صفحہ ہستی سے مٹ گئے ہیں۔ قدرتی آفات کا تعلق دو پہلوؤں سے ہے۔ ایک یہ کہ بیدار اور ہوشیار قومیں ان آفات سے نمٹنے کے لئے قبل از وقت احتیاطی تدابیر اختیار کرتی ہیں۔ خود اسلامی جمہوریہ ایران اس کی زندہ مثال ہے۔ وہاں پر قدرتی آفات سے نمٹنے کے لئے ادارے موجود ہیں جس کی وجہ سے نقصان نسبتا کم ہوتا ہے۔ حکومتی اداروں کی سستی، نااہلی اور عدم توجہ کی وجہ سے ناگہانی آفات کے نقصانات بڑھ جاتے ہیں۔ مثلا سوات کے علاقہ میں ہونے والے نقصان کے علل و اسباب کا جائزہ لیا جائے تو دریا کے درمیانی علاقہ میں تعمیر شدہ عمارتوں کی تباہی حکومتی اداروں کی نااہلی کا نتیجہ تھا۔
موجودہ صورتحال میں عوام اور فلاحی ادارے سیلاب زدگان کی بھرپور مدد کر رہے ہیں لیکن ان کا دائرہ کار محدود ہے!
موجودہ صورتحال میں عوام اور فلاحی ادارے سیلاب زدگان کی بھرپور مدد کر رہے ہیں لیکن ان کا دائرہ کار محدود ہے۔ اصل ذمہ داری ریاست کی ہے کہ وہ متاثرین کی آبادکاری ایسی جگہوں پر کرے جو قدرتی آفات کے خطرات سے نسبتا محفوظ ہوں۔
دوسرا پہلو یہ ہے کہ تباہ شدہ انفراسٹرکچر کو دوبارہ تعمیر کرتے ہوئے ناقص میٹیریل کا استعمال اور رشوت کے ذریعہ ٹھیکوں کی منظوری کو ترک کیا جائے۔ پاکستان کو اس وقت بد ترین مالی خسارے کا سامنا ہے۔ انفراسٹرکچر کی تعمیر اور خوراک کی ضرورت پوری کرنے کے لئے اسے بین الاقوامی اداروں کی مدد کی اشد ضرورت ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ بین الاقوامی برادری پاکستان کی کس حد تک مدد کر سکتی ہے۔
حوزہ: سیلاب متاثرین کی امداد رسانی کے امور میں اپنی زحمات اور فعالیت کو بیان کریں اور آیا اب تک اس عمل میں حکومتی اور غیر سرکاری اداروں یا افراد کی سرگرمیاں کافی رہی ہیں؟
علامہ امین شہیدی: الحمد للہ سیلاب متاثرین کی امداد کے حوالہ سے شیعہ تنظیمیں، ادارے، گروپس، مدارس، مساجد کمیٹیاں، امام بارگاہیں اور ٹرسٹ فعال ہیں اور چندہ، راشن اور ادویات وغیرہ جمع کر کے متاثرہ علاقوں تک پہنچانے کا کام کر رہے ہی۔ لیکن بڑھتی ہوئی مہنگائی اور اجناس کی دگنی قیمتوں کی وجہ سے اس امداد کو زیادہ عرصہ تک جاری رکھنا ممکن نہیں۔ یہ حکومتِ وقت کی ذمہ داری ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ کام کرے۔ اس وقت بھی سندھ اور بلوچستان کے بیشتر علاقے حکومتی امداد سے محروم ہیں۔ گو کہ وزیر اعظم شہباز شریف نے کچھ علاقوں کے فضائی دوروں کی وڈیوز شیئر کی ہیں لیکن یہ محض دکھاوا ہے۔ اصل کام عوام کر رہی ہے۔
حوزہ: اتحاد بین المسلمین سے کیا مراد ہے؟ لوگوں کے ذہن میں ڈالا جانے والا شبھه کہ "وحدت کا مطلب اپنے دینی اعتقادات و نظریات سے پیچھے ہٹنا ہے"، کی وضاحت کریں؟
علامہ امین شہیدی: اتحاد بین المسلمین سے مراد یہ ہے کہ مسلمانوں کے تمام فرقے مشترکات پر متحد ہوں اور کندھے سے کندھا ملا کر دین کی حفاظت کریں۔ اس اتحاد سے مراد ہرگز یہ نہیں کہ کوئی بھی فرقہ اپنے عقائد سے دستبردار ہو کر دوسرے فرقہ کے عقائد کی پیروی شروع کر دے۔ تمام فرقوں میں توحید، رسالت، قرآن، معاد، عبادات، دین کی تبلیغ، اغیار اور دین دشمنوں کے مقابلہ میں مل کر صف آرا ہونے پر اتفاق پایا جاتا ہے۔ اتحاد بین المسلمین سے مراد یہ بھی ہے کہ اگر دشمنانِ اسلام کی طرف سے علاقائیت، لسانیت اور فرقہ واریت کی بنیاد پر مسلمانوں کو تقسیم یا ان کی اجتماعی طاقت کو کمزور کرنے کی کوشش کی جائے تاکہ ان کے وسائل پر قبضہ کیا جاسکے تو ایسی صورت میں مسلمان مل کر کھڑے ہو جائیں۔ عجیب بات ہے کہ حالیہ جنگوں میں خون بہانے اور خون دینے والے دونوں طرف سے مسلمان ہیں اور اسلحہ اغیار کا استعمال ہو رہا ہے۔ امریکی اسلحہ بیچنے کے لئے ایک فرقہ کو دوسرے فرقہ سے لڑایا جاتا ہے۔ شام، عراق اور یمن کی جنگوں کو ملاحظہ کیا جائے تو مقصود ان ممالک کے وسائل پر قبضہ کرنا ہے۔
جب تک ہم اغیار کے پروپیگنڈے کا شکار رہیں گے تب تک ہمارا خون بہتا رہے گا اور ہم اپنے مشترکات کی حفاظت بھی نہیں کر سکیں گے۔
یعنی جب تک ہم اغیار کے پروپیگنڈے کا شکار رہیں گے تب تک ہمارا خون بہتا رہے گا اور ہم اپنے مشترکات کی حفاظت بھی نہیں کر سکیں گے۔ اتحاد بین المسلمین سے مراد یہ ہے کہ مسلمان آپس میں لڑنے کی بجائے امریکہ اور اسرائیل سے لڑیں۔ سعودی عرب، یمن پر حملہ آور ہونے کی بجائے مسلمان ممالک کو آزاد کرانے کے لئے اپنی توانائی صرف کرے۔ داعش، حزب الاحرار اور لشکرِ جھنگوی کو امت کے اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کے لئے تخلیق کیا گیا ہے۔ اتحاد بین المسلمین کا تقاضہ ہے کہ مسلمان علماء کرام آپس میں مل کر بیٹھیں اور مسلم امہ کو ظلم، بربریت اور اغیار کی سازشوں سے بچانے کے لئے جدوجہد کریں۔